عشق اور سیاست
کہا جاتا ہے کہ عشق اور سیاست میں سب کچھ جائز
ہے جس کی لاٹھی اس کی بھینس جیسی مثال ہے یعنی جس کی حکومت اس کا زور اسی طرح جب
عمران خان اقتدارمیں تھے تواپوزیشن میں جس کو دل چاہا اس کو جیل میں ڈال دیا اس
کے پیچھے کون تھا اس بات کا سب کو معلوم ہوتے ہوئے بھی کوئی نہیں بتاتا۔ اسی طرح
جب پی ڈی ایم کی حکومت ہے تو وہ بھی کیسے پیچھے رہے گئے پہلے فواد چوہدری کو پولیس
نے الیکشن کمیشن کے خلاف بیان پر گرفتار کر لیا گیا اور اب شیخ رشید کو اور عمران
ریاض خان کو بھی پکڑ لیا شیخ رشید نے کل آصف علی زرداری اور بلاول کو گالیاں دیں
جو کہ غلط تھا اسی طرح حکومت جس پر مر ضی پرچہ کر کے پکڑوا دے گی جس طرح سابق
حکومت یعنی عمران خان کی حکومت کرتی رہی ہے یہ تو ہونا ہی ہے کیونکہ جیسا کرنا
ویسا بھرنا ہے اب ان سیا ست دانوں کو اپنی ذاتی مفاد اور اپنی دشمنی کو بھول کر
ملک پاکستان کے لیے کچھ کرنا ہو گا تمام ممالک ااترقی کی طرف گامزن ہیں اور ہمارے
ملک میں ابھی تک آٹے اور چینی کی بھوک پوری نہیں ہو رہی ہے مہنگائی اتنی بڑھ گئی
ہے کہ غریب آدمی کا جینا دو بھر ہو چکا ہے۔ آج کے اس مہنگائی کے دور میں اہنے بچوں
کا پیٹ پالنا بہت مشکل ہو گیا یے ہمارے پا س اتنے ڈالر نہیں ہیں کہ ہم بین لا
اقوامی برآمدادکر سکے جس کی وجہ سے مشکلات
میں اضافہ ہو رہا ہے لیکن حکمران ہیں کہ ان کے کان پر جو تک نہیں رینگتی ہے اب جو سب سے
اہم بات ہے کہ آج یاں کل تک چیرمین پی ٹی آئی عمران خان کو گرفتار کیا جا ئے گا
کیونکہ ٹیرن وائٹ کیس میں لارجر بنچ تشکیل دے دیا گیا ہے جو کہ اس کیس پر شنعا ئی
کرے گا اور امید یہ کی جارہی ہے کہ یہ بنچ عمران خان کو نااہل کرے گا اور عمران
خان کع سیاست میں سے باہر کرنے کی پوری تیاری کی جا رہی ہے اوپر سے عمران خان کے
33حلقوں میں سے الیکشن لڑنے کا اعلان بھی کیا ہو ا ہے جبکہ ایک حلقے میں الیکشن
لڑنے کے لیے 2سے 3 کڑوڑ کا خرچہ ہے وہ کہاں سے آئے گ اب تو کوئی قیمتی گھڑی بھی ان
کے پاس نہیں ہے تو پھر اتنی بڑی رقم نا جانے کہاں سے آئے گی اگر وہ اس سے پہلے نا
اہل ہو گئے تو ان حلقوں سے کوالیکشن لڑے گا جو عمران خان کے جتنی مقبولیت رکھتا ہو
اب یہ تو وقت ئی بتائےگا۔ حالات سے تو بظاہر یہ ہی لگ رہا ہے کہ ملک میں کچھ بڑا
ہونے والا ہے دوسری طرف مریم نواز نے ملک کے مختلف شہروں کے دوروں کا آغآز بھی کر
دیا ہے وہ ورکر کنونشن سے خطاب اور پارٹی کے پارلیمانی اجلاس کر رہی ہیں
یاسر اقبال چھٹہ
0 comments:
Post a Comment